engels-urdu

Friedrich Engels on Capital – Urdu Edition

$20.00

Categories: ,

Description

Capital: Synopsis, Reviews and Supplementary Material (Urdu edition)
by Frederick Engels

Published by The Struggle Publications, Pakistan

Publisher’s Note

عرضِ ناشر

کارل مارکس کی تصنیف ”سرمایہ“ جو اپنے جرمن نام ”داس کیپیٹل “ سے بھی معروف ہے، کی شہرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔آج بھی دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو سنجیدگی سے سمجھنے والے اسی کتاب سے رجوع کرتے ہیں۔1867ءمیںاپنی پہلی اشاعت سے لے کر آج تک تقریباً ڈیڑھ سو سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن اس دوران اس کتاب کی اہمیت کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھی ہے۔اس دوران سرمایہ دارانہ نظام کے زوال اور اس کے علم و دانش سمیت سماج کے ہر حصے پر پڑنے والے اثرات کے باعث اس عظیم تصنیف کو سمجھنا آج آسان نہیں رہا۔گو کہ اس کتاب کا موضوع سیاسی معاشیات ہے لیکن اس موضوع کو نہ صرف جدلیاتی مادیت کے فلسفے کے تحت بیان کیا گیا ہے بلکہ اہم فلسفیانہ نتائج بھی اخذ کیے گئے ہیں۔اسی طرح تاریخی مادیت کے اصولوں کے پیش نظر سرمایہ دارانہ نظام اور انسانی سماج کے عمومی ارتقاءپر بھی سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ اسی طرح عالمی ادب سے دی گئی مثالیں قاری کو جمالیاتی حظ بھی فراہم کرتی ہیں۔زیر نظر کتاب مارکس کی” سرمایہ “ اور اس میں موجود کلیدی نکات کو سمجھنے میں مدد دے گی۔
” سرمایہ “ کے خاکہ کو ایک حوالے سے پہلے چار حصوں کا خلاصہ بھی کہا جا سکتا ہے جو مارکس کے دیرینہ کامریڈ اینگلز نے خود لکھا تھا۔اسی طرح ”سرمایہ “ پر لکھے جانے والے تبصرے اس عظیم تصنیف کا انتہائی خوبصورت تعارف پیش کرتے ہیں۔جبکہ کتاب کے آخر میں موجود ضمنی مواد تیسری جلد کے اہم نکات پر روشنی ڈالتے ہیں۔اس حوالے سے اس کتاب کو ”سرمایہ “ کی تمہید کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔جسے پڑھنا مارکسی نظریات میں دلچسپی رکھنے والے تمام افراد کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
اردو زبان میں اس عظیم تصنیف کا ترجمہ پیش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔زیر نظر کتاب کا اردو ترجمہ1974ءمیں سوویت یونین میں پہلی دفعہ شائع ہوا تھا۔موجودہ ترجمہ قارئین کی سہولت کے پیش نظر بعض تبدیلیوں کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے ۔انگریزی لفظ کموڈوٹی کے لیے بعض تراجم میں جنس کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے لیکن یہاں اس کا ترجمہ شے کیا گیا ہے۔ اسی طرح لیبر پاورکا ترجمہ قوتِ محن کیا گیا ہے۔اسی طرح کچھ اور تراکیب بھی کچھ قارئین کو نئی معلوم ہوں گی لیکن اگر کسی کو پڑھنے میں دشواری ہو تو اس کی وجہ ترجمہ اور تراکیب کا استعمال نہیں بلکہ خیال اور معنی کی وسعت اور گہرائی ہے ۔ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سی اردو تراکیب کی جگہ انگریزی تراکیب ہی زیادہ عام ہوتی ہیں اس لیے ان کا اردو ترجمہ قاری کے لیے آسانی کی بجائے مشکل پیداکر دیتا ہے ، اس لیے ان تراکیب کے اردو ترجمے کے ساتھ ساتھ ان کی انگریزی بھی شامل کی گئی ہے۔اس کے باوجود چونکہ عمومی طور پر پائی جانے والی سطحی دانش، بے معنی تجزیے اور گمراہ کن تناظر روز مرہ کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں اس لیے سنجیدہ تصانیف کو سمجھنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ا نہی دقتوں کے باعث مارکسزم سے دلچسپی رکھنے والے بھی کئی دفعہ راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں۔موجودہ کتاب کو شائع کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ”سرمایہ “ کی ضخامت اور وسعت سے گھبرا کر ہچکچانے والے قارئین کے لیے اس علم کے سمندر تک پہنچنے کا رستہ فراہم کیا جائے۔لیکن د وسرے حوالے سے اس کتاب کو ”سرمایہ“ کا جوہر بھی کہا جا سکتا ہے۔گوکہ یہ مختصر سی کتاب اس عظیم تصنیف کا متبادل کبھی بھی نہیں ہو سکتی لیکن سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد میں مگن انقلابیوں کے لیے یہ کتاب وہ ضروری مواد یقینا مہیا کرتی ہے جو اس تاریخی فریضے کو ادا کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔
بنیادی نظریات پر عبور نہ ہونے کی وجہ سے نظام کو بدلنے کی کٹھن جدوجہد میں فیصلہ کن مراحل پر غلطیاں سر زد ہو جاتی ہیں جن کا خمیازہ نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔سوویت یونین کا انہدام ایسا ہی ایک واقعہ تھا جب خود کو مارکسسٹ اور کمیونسٹ کہلوانے والوں نے اسے سوشلزم اور مارکسزم کی ناکامی قرار دیا۔ یہی لوگ امریکی سامراج کے ”تاریخ کے خاتمے“ کے فلسفے پر شعور ی یا لا شعور ی طور پر یقین لے آئے اور مارکسزم کے عظیم نظریات کو رد کرنا شروع کر دیا۔کارل مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام کے عروج و زوال اور انہدام کی پیش گوئی جذباتی بنیادوں پر نہیں کی تھی بلکہ ٹھوس سائنسی بنیادوں پر ثابت کیا تھا کہ اس نظام کے بنیادی تضادات کیا ہےں اور کیوں اور کیسے یہ ایک تاریخی مرحلے پر آ کر انسانیت کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے جسے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اکھاڑنا آج کے عہد کا اہم ترین فریضہ ہے۔مارکسی اساتذہ کی تحریروں کا مطالعہ کرنے والے اور انہیں دیانت داری سے سمجھنے والے کبھی ایسے پراپیگنڈے کا شکار نہیں ہو سکتے اور نہ ہی بڑے سے بڑے واقعات ان کے پختہ عزم میں درڑایں ڈال سکتے ہیں۔ان نظریات سے عدم آگہی اور ان کو مسخ کر کے غلط نظریات کو پروان چڑھانے کے باعث ہی ہم نے ماضی میں انسانیت کے خلاف بہت بڑے جرائم دیکھے ہیں ۔ چین اور روس جیسے دیو ہیکل ممالک کی معیشتیں اور پورے سماج بھی جب مارکسی نظریات سے انحراف کر گئے تو ان کا انجام آج سب کے سامنے ہے۔لینن اور ٹراٹسکی کی قیاد ت میں 1917ءبرپا ہونے والے انقلاب نے مارکسزم کی سچائی کو پوری دنیا کے سامنے ثابت کر دیا تھا۔ سوشلسٹ نظام کی سرمایہ داری پر فوقیت ”سرمایہ “ کے صفحات سے نکل کر بھاری صنعت سمیت سماج کے ہر شعبے میں ثابت ہوئی تھی۔لیکن سوویت یونین کی سٹالنسٹ زوال پذیری کے باعث یہ تمام حاصلات ختم ہوتی چلی گئیں۔ مارکسزم کے نظریات اور بین الاقوامیت سے انحراف بالآخر سوویت یونین کے انہدام پر منتج ہوا۔اس کو بنیاد بنا کر عالمی سامراجی قوتوں نے مارکسزم کے خلاف عالمگیر پراپیگنڈا کیا۔گو کہ مارکسزم کو غلط ثابت کرنے کی ناکام کوششیں روز اول سے ہی جاری ہیںلیکن اس واقعے کے بعد ان کوششوں میں نہ صرف تیزی آ گئی بلکہ ان کے پاس سوشلزم کے خلاف ایک رجعتی یلغار کے لیے بہت سا مواد بھی میسر آ گیا۔ ان تمام کوششوں کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام کو انسانوں کے وسیع تر حصوں کے لیے قابل قبول بنانے کی تمام کوششیں بار آور ثابت نہیں ہو سکیں۔گیلیلیو کی تحقیق کو غلط قرار دینے کے بعد کلیسا زمین کو سورج کے گرد گھومنے سے نہیں روک سکا۔ اسی طرح مارکس کے نظریات کو غلط کہنے والے سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی تضادات کو ختم نہیں کر پائے اور نہ کبھی کر سکیں گے۔
سطحی سوچ رکھنے والے ہمیشہ عالمی معیشت کے دیو ہیکل حجم اور پوری دنیا پر اس کی جکڑ دیکھ کر اسے ابدی اور لازوال سمجھیں گے اور سرمائے کے دیو تاکے سامنے سر نگوں ہو جائیں گے۔ لیکن جدلیاتی مادیت پر یقین رکھنے والے اور مارکسزم کو سمجھنے والے جان سکتے ہیں کہ اس نظام کی بنیادوں میں جو تضاد ہےں وہ اسے مسلسل کھوکھلا کر رہے ہیں اور اس کی گلی سڑی لاش نسلِ انساں پر ایک اذیت ناک بوجھ بن گئی ہے۔یہی آگہی وہ جذبہ، جرات ، حوصلہ اور ولولہ پیدا کرتی ہے جس سے انسان کرہ¿ ارض کے تمام ناخداو¿ں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتا ہے جن میں سب سے بڑا خدا سرمایہ ہے۔
آج کے عہد کا بنیادی تضاد سرمائے اور محنت کا تضاد ہے۔ کرہ ارض پر پیدا ہونے والی تمام دولت انسانی محنت کا نتیجہ ہے جبکہ اس پر قبضہ اور حکمرانی سرمائے کی ہے۔ جس طرح یونانی دیو مالا میں ایک دیوتامولوچ کو خوش کرنے کے لیے معصوم بچوں کو آگ میں پھینک دیا جاتا تھا آج اسی طرح سرمائے کے دیوتا کی خوشی کے لیے اس کے پجاری لاکھوں انسانوں کی بلی چڑھا رہے ہیں۔یہ کھیل اتنا خونخوار ہو گیا ہے کہ پوری انسانی تہذیب کا وجود خطرے میں پڑگیا ہے۔یقینا اس کو اب مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ سرمائے کی اس حکمرانی کے خلاف محنت کی حاکمیت قائم کرنے کے لیے ایک فیصلہ کن جنگ کا وقت آ گیا ہے۔ایک ایسی طبقاتی جنگ جس میں سرمایہ دار طبقے کے خلاف محنت کش طبقہ منظم ہو کر انسانی تہذیب کی بقا اور نجات کے لیے لڑے گا۔ اس عظیم اور نسل انسانی کی فیصلہ کن جنگ میں یہ کتاب اور اس میں موجود نظریات ایک اہم ہتھیار ثابت ہوں گے۔ان نظریات سے لیس عالمی پرولتاری فوج کے سپاہی اس معرکے میں یقینا کامیاب ہوں گے اور ظلم کی اس نگری میںسرخ سویرا طلوع ہو کر رہے گا۔
ادارہ جدوجہد
22مئی 2014ء
لاہور

Additional information

Weight 13 oz
Dimensions 9 × 6 × 1 in